Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/
اولاد کی اچھی تربیت والدین کا بنیادی فرض ہے۔ اسلام ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ بچے پیدا کر کے انہیں بے لگام چھوڑ دیا جائے بلکہ شریعت مطہرہ نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ اولاد کی اچھی تربیت کی جائے تاکہ وہ آگے چل کر اچھے انسان بنیں۔ ایک کارآمد انسان ثابت ہوں،اچھے مسلمان بنیں۔ ماں کی ذمہ داری صرف بچے کو جنم دینے تک نہیں ہوتی اصل ذمہ داری تو اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ بچے کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں کی گود میں علم ہے تو بچہ عالم بنے گا اور اگر ماں سمجھدار ہے تو بچہ بھی سمجھدار ہو گا اور اگر ماں کی زبان پر جہالت ہے تو بچہ بھی جہالت کو آگے لے کر چلے گا۔ اس لیے میری ماؤں بہنوں کو علم سیکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
زمانہ قدیم کی کہاوت ہے ’’مرد پڑھا فرد پڑھا،عورت پڑھی خاندان پڑھا‘‘۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب بچہ چار پانچ سال کا ہو گا تو اسکی تعلیم و تربیت شروع کریں گے، یہ خیال بالکل غلط ہے۔ تربیت کا وقت بچے کے پیدا ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ظاہراً اس میں کوئی عقل وشعور اور تمیز کچھ نہیں ہے لیکن نہ تو اس کے سامنے کوئی برا کلمہ کہو اور نہ ہی کوئی بری حرکت کرو کیونکہ بچہ ہوش میں ہے۔ اس کا قلب سفید کاغذ کی مانند ہے۔ آنکھ کے ذریعے جو ہیئت جائے گی، دل پہ نقش ہو جائے گی۔ اگر کوئی بری بات گالی گلوچ سنے گا، وہ کان کے راستے دل تک پہنچے گی اور پھر بڑا ہو کر وہ بھی ایسی ہی حرکات کرے گا اس لیے بچوں کے سامنے تہذیب اور شائستگی سے بات کریں تاکہ ان میں اچھی عادتیں جنم لیں۔ اولاد کی اچھی تربیت کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا، ’’اے ایمان والو !اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچا‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں ایک نکتہ بیان کر دیا کہ پہلے اپنے آپ کو بچائے اور پھر فرمایا اپنے گھر والوں کو بچاؤ۔
آج کے والدین کہتے ہیں ہماری اولاد اچھی بن جائے لیکن خود کو نہیں بدلتے بچوں کو اچھا ماحول نہیں دیتے۔ گھروں میں خود ایسی چیزیں لا کر رکھتے ہیں جو خود انکے اور انکے بچوں کے اخلاق اور اعمال کے بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ توجب گھروں میں ہی گناہوں اور اللہ سے دوری اور نافرمانی کے سامان مہیا ہوں تو اولاد کے سنورنے، سدھرنے اور نیک صالح بننے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس لیے پہلے اپنی اصلاح کی فکر کریں اور پھر اپنے اہل وعیال کی،جیسی اللہ تعالی نے آیت مبارکہ میں ترتیب رکھی ہے کہ پہلے خود کی تربیت کرو اور بعد میں اپنے بچوں کی اصلاح پر بھی دھیان دو۔
کچھ لوگ صرف اپنی اصلاح کی فکر کرتے ہیں۔ صف اول میں نماز پڑھ رہے ہیں تہجد کی پابندی کر رہے ہیں۔ اولاد گناہوں کے دلدل میں دھنسی ہوئی ہے مگر والدین کو کوئی خبر نہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے حصے پہ تو خوب عمل کیا مگر اگلے حصے یعنی اولاد کی تربیت تک جانے کی ضرورت محسوس نہ کی ایسے لوگوں سے اگر ان کی اولاد کے بارے میں بات کی جائے تو فورا سے پسر نوح والی مثال دیں گے حالانکہ وہ پورا واقعہ نہیں جانتے کہ نوح علیہ السلام نے کتنا عرصہ اپنے بیٹے کو تبلیغ کی تھی۔ بچوں کی تربیت میں اہم چیز اچھی عادات کا پایا جانا اور بری عادات سے بچانا بھی شامل ہے۔ اگر بچہ کوئی غلطی کر رہا ہے تو والدین کو چاہیے کہ پیار سے اسے سمجھائیں اسے اس برائی کے نقصانات اور گناہ سے آگاہ کریں۔ ممکن ہے ایسا کرنے سے بچہ باز آجائے اگر پھر بھی وہ غلط عادت نہیں چھوڑتا تو ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے اسکی وہ غلط عادت چھڑوانے کی کوشش کریں ضرورت پڑنے پر بچوں کو صلاح کی نیت سے مارا بھی جا سکتا ہے لیکن مقصد اصلاح کرنا ہی ہو۔
بعض لوگ بچوں کی غلط عادات پر خوش ہوتے ہیں اور اس طرح ایک غلط عادت اس کی پختہ ہو جاتی ہے۔ اگر بچے نے گالی نکال دی توسارے گھر والے خوش ہوتے ہیں اور وہ بچہ بار بار گالی نکالتا جارہا ہے اور ایک برائی کو برائی سمجھنے سے عاری ہے۔ اسی طرح بچے نے اسکول جانا شروع کیا، کلاس میں کسی بچے کی چیز پسند آئی، بچے نے اٹھا کر چھپالی۔ گھر لے آیا، ماں نے دیکھی اور دیکھ کر نظر انداز کر دیا۔ بچے کو دوبارہ کوئی چیز چھپانے کا موقع مل گیا۔ اسی طرح اس کی چوری کرنے کی عادت بن گئی۔ دوسرے بچوں کی چیزیں چھپانے کی۔ قصور کس کا ؟ اسی ماں کا، اگر ماں اچھی تربیت کرنے والی ہوتی توپہلی بار ہی بچے کے پاس ایک ایسی چیز جو اس کی نہیں ہے اسے دیکھ کر فوراً پوچھتی کہاں سے آئی؟ کس سے لی؟ کیوں لی؟
جس کی ہے، اسے واپس کرو۔ ایسا کرنا گناہ ہے۔ بچے کو ڈر ہوتا۔ جب ایک دفعہ ایسا کرتے تو اسے دوبارہ کچھ چھپانے کا یا چوری کرنے کا موقع ہی نہ ملتا، اسی طرح بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جنہیں ہم یہ کہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بچہ ہے بڑا ہو گا تو سمجھ جائے گا لیکن وہ بڑا ہو کر سمجھتا نہیں ۔ آپکو سمجھا جاتا ہے آپکی آنکھیں کھول جاتا ہے۔ اس لیے روز اول سے ہی اپنے بچوں کی بری عادتوں کو ان کے اندر سے ختم کرنے کی کوشش کریں اور اچھی عادات پیدا کریں۔ اچھی عادات پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بچے کو دلیل کے ساتھ پیار سے اپنی بات سمجھائی جائے۔ بچے کو اچھے کاموں کا حکم دینے کے بجائے بچے کے دل میں اس کام کی محبت پیدا کریں۔ بچے کو مجبور نہ کریں کہ آپنے فلاں کام کرنا ہے بلکہ اسکے سامنے اس کام کی اور کام کرنے والوں کی تعریف کریں تاکہ اسکے دل میں محبت پیدا ہو اور وہ خود بخود ایسا کرنے لگے۔
جیسا کہ بچوں کو اگر کہا جائے کہ فلاں بچہ اتنا اچھا ہے وہ فلاں فلاں کام کرتا ہے۔تو بچہ فوراً اسکا اثر لے گا۔ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اگر بچوں کو زبردستی کوئی کام کہا جائے پابندی کروائی جائے سر پہ ڈنڈا کھڑا کیا جائے تو وہ بچہ وہ کام ڈر سے کر لے گا لیکن ڈر ختم۔ پابندی ختم۔ مثال کے طور پہ بچے کو نماز پڑھنے کا کہا باپ ساتھ لے کر جاتا ہے سختی کرتا ہے اور بچہ ڈر سے نماز پڑھ لیتا ہے لیکن وہی بچہ جب شعور کی زندگی میں قدم رکھتا ہے۔ اپنے بھلے برے کی تمیز کرنے لگتا ہے، تو وہ نماز پڑھنا چھوڑ دیتا ہے۔ کیونکہ اسکو پتا ہی نہیں کہ نماز پڑھنے پر اللہ کی طرف سے کیا کیا انعامات ملنے ہیں اور نہ اسے یہ معلوم ہے کے اگر نماز نہ پڑھی، تو اللہ کو کیا جواب دے گا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اس طرح دلیل اور منطق سے کریں کہ انھیں اچھی عادات کیساتھ ساتھ انکے فوائد اور بری عادات کے نقصانات کا بھی علم ہو۔
0 Comments