Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

اذان دینے کا اجروثواب احادیث کی روشنی میں

’’اذان‘‘ لغت میں خبر دینے کو کہتے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں چند مخصوص اوقات میں نماز کی خبر دینے کیلئے چند مخصوص الفاظ کے دہرانے کو ’’اذان‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’اذان‘‘ کی مشروعیت کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے اور وہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت کے اعلان کیلئے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہیے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو ’’اوقاتِ نماز‘‘ کی اطلاع ہو جایا کرے، تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہو کر باجماعت نماز ادا کر سکا کریں۔ چنانچہ بعض صحابہ کرام ؓ نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر ’’آگ‘‘ روشن کر دی جایا کرے تاکہ اُسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہو جایا کریں، بعض نے کہا کہ نصاریٰ کی طرح ’’ناقوس‘‘ بنا لیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح ’’سینگ‘‘ بنا لیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔

صائب الرائے صحابہ کرامؓ نے ان تجاویز کے سلسلے میں عرض کیا کہ ’’آگ‘‘ تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لئے روشن کرتے ہیں ، اسی طرح ’’ناقوس‘‘ نصاریٰ اپنی عبادت کے وقت اعلان کیلئے بجاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہیں کرنے چاہئیں کہ اِس سے یہود و نصاریٰ کی مشابہت لازم آتی ہے بلکہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہیے ۔ بات معقول تھی، اس لئے بغیر کسی فیصلے کے مجلس برخاست ہو گئی اور صحابہ کرامؓ اپنے اپنے گھر تشریف لے گئے ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن زیدؓ نے جب یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس سلسلے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آرہا تو وہ بہت پریشان ہوئے، اُن کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح جلد از جلد طے ہو جائے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فکر و پریشانی دور ہو جائے، چنانچہ یہ اسی سوچ و فکر میں گھر آکر سو گئے ، رات کو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ اُن کے سامنے کھڑے ہو کر اذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔

جب صبح ہوئی تو اُٹھ کر بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’بلاشبہ یہ خواب سچا ہے‘‘ اور فرمایا کہ: ’’بلال کو اپنے ہمراہ لو اور جو کلمات خواب میں تم کو تعلیم کئے گئے ہیں وہ اِن کو بتاتے رہو وہ انہیں زور زور سے ادا کریں گے، کیوں کہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔‘‘ (مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف: 1/453) چنانچہ جب حضرت بلالؓ نے اذان دینا شروع کی اور اُن کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق ؓ دوڑے دوڑے آئے اور عرض کیا کہ: ’’یارسولؐ اللہ ! قسم ہے اُس ذات پاک کی کہ جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، ابھی جو کلمات ادا کئے گئے ہیں، میں نے خواب میں ایسے کلمات سنے ہیں ۔‘‘ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات میں دس، گیارہ یا چودہ صحابہ کرامؓ نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔ بہرحال اذان کی مشروعیت میں صحیح اور مشہور یہی ہے کہ اس کی ابتداء حضرت عبد اللہ بن زید انصاریؓ اور حضرت عمر فاروق ؓکا یہی خواب تھا جو اُنہوں نے اس رات دیکھا تھا۔

اِس میں شک نہیں کہ ’’اذان‘‘ اللہ تعالیٰ کے اذکار میں سے ایک عظیم ترین اور ایک اہم ترین ذکر ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور نبی کریم ﷺ کی رسالت کی شہادت کا اعلان کیا جاتا ہے ، لوگوں کو کامیابی و کامرانی کی طرف بلایا جاتا ہے اور اسلام کی شان و شوکت کا ایک بہترین عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کی مثال دُنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ’’اذان‘‘ دینے کی اہمیت و فضیلت اور اُس کا اجر و ثواب احادیث و روایات میں با کثرت وارد ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ میں نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ’’ قیامت کے دن سب سے اُونچی گردنوں والے لوگ ’’مؤذن‘‘ ہوں گے۔‘‘(صحیح مسلم)

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن یا اور کوئی بھی چیز ہو تو وہ سب قیامت کے دن اِس (کے ایمان) کی گواہی دیں گے۔ ‘‘ (صحیح بخاری) حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رحمت کائنات حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اذان دینے والے کی بخشش اُس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اُس کے (ایمان کے) گواہ ہو جاتے ہیں۔ پچیس (25) نمازوں کا ثواب (اُس کے زائد اعمال میں) اُس کے لئے لکھا جاتا ہے اور ایک سے دوسری نماز کے درمیان اُس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘(احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص (مزدوری اور اُجرت کے لالچ کے بغیر) محض ثواب حاصل کرنے کی نیت سے 7 سال تک اذان دے تو اُس کیلئے جہنم سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔‘‘ (ترمذی وابن ماجہ)

حضرت عقبہ بن عامرؓسے روایت ہے کہ ہادیٔ عالم نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کیلئے اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے ، پس اللہ عز وجل (ملائکہ مقربین سے) فرماتے ہیں کہ: ’’میرے اِس بندے کی طرف دیکھو کہ یہ پابندی سے اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے، پس میں نے اپنے (اِس) بندے کے گناہ بخش دئیے ہیں اور میں اِس کو جنت میں داخل کروں گا۔‘‘ (ابو داؤد، نسائی) حضرت عمرؓسے مروی ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جب مؤذن ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’اشہد ان محمداً رسول اللہ‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’اشہد ان محمداً رسول اللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’حی علیٰ الصلوٰۃ‘‘ کہے تو تم میں سے ہر شخص ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’حی علیٰ الفلاح‘‘ کہے تو تم میں سے ہر شخص ’’لاحول ولاقوۃ الا باللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے۔ پس جس نے (اذان کے کلمات کے جواب میں یہ کلمات ) صدقِ دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘(صحیح مسلم)

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓسے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’جب تم مؤذن کی آواز سنو تو اُس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو ، کیوں کہ جو شخص ایک مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے بدلے میں 10 مرتبہ اُس پر رحمت نازل فرماتا ہے، پھر( مجھ پر درود بھیج کر) میرے لئے (اللہ تعالیٰ کے وسیلے سے) دُعا کرو! ’’وسیلہ‘‘ جنت کا ایک (اعلیٰ) درجہ ہے ، جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا، اور مجھ کو اُمید ہے کہ وہ خاص بندہ میں ہی ہوں گا، لہٰذا جو شخص میرے لئے وسیلے کی دُعا کرے گا (قیامت کے دن) اُس کی سفارش مجھ پر ضروری ہو جائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ’’قیامت کے دن 3 آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، ایک وہ غلام کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے بھی حقوق ادا کیے اور اپنے آقا کے بھی حقوق ادا کیے، اور دوسرا وہ شخص جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو اور لوگ اِس سے خوش ہوں اور تیسرا وہ شخص جو روزانہ 5 نمازوں کے لئے اذان کہتا ہو۔‘‘(جامع ترمذی) الغرض اذان دینے کے فضائل و برکات اور اُن پر گراں قدر اجر و ثواب کا ملنا احادیث و روایات میں با کثرت وارد ہوا ہے، جن پر صحیح طرح سے عمل پیرا ہونا اور اُنہیں ٹھیک ٹھیک بجا لانا انسان کی بخشش و مغفرت کیلئے کافی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اندھیروں میں جا کر مسجدوں کو آباد کرتے ہیں، اُن میں کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی تسبیحات کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کا منادی بن کر روزانہ صبح و شام 5 مرتبہ نماز کی طرف اور کامیابی و کامرانی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔

مفتی محمد وقاص رفیع

Post a Comment

0 Comments