Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

زبان کی حفاظت کیسے کریں ؟

لفظ جنت بڑا محترم، پیارا اور محبوب لفظ ہے ، اسے سنتے ہی دل میں عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے ، اور دنیا کا ہر مسلمان جس میں ذرہ برابر بھی ایمانی نور ہے، وہ جنت کے حصول کی تمنا ضرور کرتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ مرنے کے بعد اس کا کوئی نہ کوئی ٹھکانہ ضرور ہے، اگر اللہ نے خاتمہ بالخیر نصیب فرمایا ہے تو وہ ضر ور جنتی ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خاتمہ بالخیرنصیب فرمائے ۔ آمین 

زبان: اعضا ئے انسانی میں زبان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ اللہ رب العالمین نے اسے نہایت ہی صاف ستھرا بنایا ہے، اور بڑی حفاظت کی جگہ رکھا ہے زبان دین اور دنیا دونوں کی کامیابی کا مدار ہے۔ جس آدمی کی زبان اس کے قبضے میں ہے وہ بڑا دانا اور بینا سمجھا جاتا ہے ۔ زبان کو اللہ پاک نے انسانی وجود میں وہ مقام دیا جو کسی اور عضو کو نہیں دیا، اس کا بول ہی انسان کی اصلیت کو واضح کر دیتا ہے ، زبان کی حفاظت کرنا بھی انسان کی ذمہ داری ہے اس سے نکلا ہوا لفظ انسان کو عروج بھی دیتا ہے اور زوال بھی۔ عرب کی مشہور مثل ہے لسان الحکیم فی قلبہ وقلب الاحمق فی لسانہ ۔ ترجمہ ’’یعنی دانشمندوں کی زبان ان کے دل میں ہوتی ہے اور بےوقوفوں کا دل ان کی زبان میں ہوتا ہے ۔ دانشمند پہلے دل اورعقل کے معیار پر کسی لفظ کو پرکھتا ، جانچتا اور تولتا ہے ، پھر بولتا ہے اور بے وقوف پہلے بولتا اور پھر سوچتا ہے یہی وجہ ہے کہ دانشمند اپنی باتوں پر کم نادم ہوتا ہے اور بے وقوف کی بات کبھی کبھار ہی برمحل ہوتی ہے ۔ کیا خوب کسی شاعرنے کہا ہے

حرف حرف سوچیے۔ لفظ لفظ تولئے
خوب غورکیجئے پھرزبان کھولیے

زبان کے شیریں رکھنے سے انسان بڑے سے بڑا کام آسانی سے کر لیتا ہے، سخت سے سخت دل کو موہ لیتا ہے اور کٹھن مراحل آسانی سے طے کر لیتا ہے۔ دشمن کے دلوں کو فتح کر لینا نرم زبانی اورشیریں کلامی کے ذریعے بڑا آسان ہوتا ہے کیوں کہ گفتگو کی نرمی درحقیقت سخت دلوں کے موہنے کا شہد ہوتا ہے۔ زبان کا نرم اور شیریں ہونا درحقیقت اللہ رب العالمین کا ایک بڑا عطیہ اور رحمت ہے۔ قرآن پاک میں دل کی نرمی کو رحمت بتایا گیا ہے مگرچوں کہ زبان دل کی ترجمان ہوتی ہے اس لیے دل کی نرمی کے ساتھ زبان کا شیریں اور نرم ہونا بھی یقینا اللہ کی بڑی رحمت ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں خود اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’بدترین ہے وہ انسان جس کی فحش کلامی کے وجہ سے انسان اس سے ملنا چھوڑ دیں۔ یعنی جس آدمی کی زبان میں نرمی کا پہلونہیں وہ بدترین درجے کاانسان ہے ۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

زبان کی نرم گوئی سے جس طرح سنگ دل انسان کامن موہ لینا، اسے اپنا گرویدہ بنا لینا بڑا آسان ہے، اسی طرح زبان سے دوسرے کو ایذاء پہنچانا اپنے سے دور کر دینا کچھ مشکل نہیں، کسی کو ستانا بھی نہایت سہل کام ہے۔ زبان کی درستی اور سالمیت درحقیقت تکمیلِ ایمان کا ذریعہ بھی ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اچھا اورکامل ایمان والا مسلمان وہ ہے، جسکی زبان اور ہاتھ سے کسی کا دل نہ دُکھے‘‘ بیٹھے بیٹھے زبان سے کسی کا دل دُکھا دینا بڑا آسان ہے، زبان اگر درست اور صحیح ہے تو جسم کے سارے اعضا ء درست اور صحیح ہوں گے لیکن زبان اگر بگڑ جائے تو جسم کے ہر عضو کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ غورکیجئے! جسم کا ہرعضو بالکل ٹھیک ٹھاک ہو لیکن اگر خدانخواستہ مرتے وقت کلمہ کفر نکل گیا تو سارے جسم کو اس کی سزا ملتی ہے ۔ اسی طرح اگر کسی بدخلق ، بدزبان انسان نے دوران بحث مخاطب کے سامنے نازیبا الفاظ کہہ دئیے تو اس کی پاداش میں جسم کے ہر عضو کو سزا دی جاتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات تو زبان کے کرتوت کے سبب دائمی مفارقت پڑ جاتی ہے اور بولنے والا ہمیشہ افسوس کرتا رہتا ہے۔

جیسے غصے کی حالت میں بے قابو ہو کر ایک آدمی نے اپنی بیوی کو 3 طلاقیں دیدیں اور پھر افسوس کرتا رہتا ہے اور تادمِ حیات قلب کا یہ زخم مندمل نہیں ہو پاتا ۔ ایسے ہی موقع پرعربی کے مشہور شاعر نے کیاہی خوب کہا ہے:
جراحات السنا ن لھاالتیام ولایلتام ماجرح اللسان
ترجمہ ’’بھرا زخم تھا جو بھی تلوارکا مٹانہ اثر جرح گفتار کا‘‘یعنی چھری کا تیر کا تلوار کا زخم تو بھر جاتا ہے لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا۔ اسی لیے خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ اپنی زبان کو مروڑ دیا کرتے اور کہتے کہ اگر تو ٹھیک ہے تو سب ٹھیک اور اگر تو بگڑ گئی تو دنیا و آخرت سب برباد ۔ بسا اوقات انسان جذبات میں کوئی جملہ بولتا ہے جسے وہ ہلکا سمجھتا ہے حالانکہ اس کی وجہ سے وہ دائرہِ ایمان سے نعوذباللہ خارج ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر آدمی کو بولنے سے پہلے خوب غور کر لینا چاہیے کہ کیا کہنا ہے؟ کب کہنا ہے ؟ یا پھر خاموش رہے۔ جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ مسلمان اگر گفتگو کرے تو اچھی بات کہے یا پھرخاموش رہے۔ (اوراسی میں بھلائی ہے)۔‘‘(مسلم)

بولنے میں خیر تب ہوتی ہے جب انسان خیر کے لیے زبان استعمال کرے ایک میٹھے بول سے لاتعداد لوگ انسان کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اسی لیے سچ کہا کہنے والوں نے کہ زبان کی مٹھاس دشمن کو بھی دوست بنا دیتی ہے اور زبان کی کڑواہٹ دوست کو بھی دشمن بنا دیتی ہے لہٰذا زبان کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

مولانا محمد طارق نعمان

Post a Comment

0 Comments