Islam

6/recent/ticker-posts

معاشرہ کیسے ٹھیک ہو گا ؟

یہ ہمارے ایک دوست کا سچا اور تازہ واقعہ ہے۔ ان کی کسی اعلیٰ افسر سے ملاقات ہوئی۔ دورانِ ملاقات کسی کتاب کا ذکر آیا۔ یہ کتاب مہنگی بھی تھی اور نایاب بھی۔ ہمارے دوست نے اس سخت گیر اعلیٰ افسر سے کہا کہ میں عنقریب آپ کو یہ کتاب بھجوا دوں گا۔ ایک اہم ترین موضوع پر 45 منٹ کی میٹنگ تھی۔ میٹنگ ختم ہو گئی۔ میرے دوست نے گھر آکر کتاب کی تلاش شروع کر دی۔ رات 11 بجے تک کتاب مل گئی۔ انہوں نے کتاب پیک کی اور اگلی صبح 9 بجے ڈاک کے ذریعے اس اعلیٰ افسر کو بھجوا دی۔ اسی دن شام 5 بجے کتاب اس کی ٹیبل پر تھی۔ وہ سخت گیر اور تندخو مزاج اعلیٰ افسر ہمارے اس مولوی نما دوست کی وعدہ وفائی سے بہت ہی زیادہ متاثر ہوئے۔ یہ اعلیٰ افسر دینی طبقے کو بالکل پسند نہ کرتے تھے، لیکن ہمارے اس مولوی دوست کی ایک ادا اور وعدے کی بروقت تکمیل نے ان کی بیسیوں غلط فہمیاں دور کر دیں۔

ان کو یہ معلوم ہوا کہ مولوی حضرات آدابِ معاشرت سے پوری طرح واقف ہیں۔ یہ رہن سہن، رکھ رکھائو، اٹھنے بیٹھنے کے تمام عمدہ طریقے نہ صرف جانتے ہیں، بلکہ عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ یہ اپنے کردار سے ثابت کرتے ہیں۔ یہ گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی ہیں۔ دو دن بعد اس اعلیٰ افسر نے ہمارے دوست کو فون کیا۔ پہلے بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر کھانے کی دعوت دے ڈالی۔ ہمارے دوست وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے۔ ایک منٹ بھی تاخیر نہیں کی۔ اعلیٰ افسر نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے پوچھا کہ آپ وعدے کے بھی پابند ہیں اور وقت کے بھی۔ اس قدر پابندی آج کے دور میں کون کرتا ہے؟ ہمارے دوست نے زمین ہموار دیکھتے ہوئے ذمہ داریاں اور وعدے پورے کرنے پر ہائی ڈوز دینے کا فیصلہ کر لیا، چنانچہ انہوں نے کہا: ’’بات دراصل یہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارک میں ایفائے عہد کی بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔ 

قرآن کی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ایک ہے: ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اپنے عہد کو پورا کرو۔‘‘ اس موضوع پر چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت عبادہ ابن الصامتؓ سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا:’’بولو تو سچی بات بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو۔‘‘ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم گفتگو کرو تو جھوٹ نہ بولو اور جب وعدہ کرو تو پورا کرو۔‘‘ حضرت عبادہ الصامتؓ سے روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم 6 چیزوں کی ضمانت (عمل کرنے کی) لے لو، میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوں گا 1۔ بولو تو سچ بولو۔ 2۔ وعدہ کرو تو اسے پورا کرو۔ 3۔ امانت ادا کرو۔ 4۔ اپنی خواہشات کی حفاظت کرو۔ 5۔ اپنی نگاہیں پست رکھو۔ 6۔ اپنے ہاتھ کو بچا کر رکھو یعنی کسی کو تکلیف نہ دو۔‘‘ حضرت عبدﷲ بن عامرؓ سے روایت ہے آپﷺ ہمارے گھر تشریف فرما تھے۔ میری ماں نے مجھے بلایا اور کہا:’’ آئو! میں تمہیں ایک چیز دوں گی۔‘‘ آپ ﷺ نے اس کی والدہ سے دریافت کیا:’’کیا دو گی؟‘‘ کہا:’’کھجور دوں گی۔‘‘ 

آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر تم اس کو کچھ نہ دو گی تو تم جھوٹوں میں لکھی جائو گی۔‘‘ میرا دوست کہتا ہے کہ وہ اعلیٰ افسر پورے غور اور توجہ سے میری یہ ساری باتیں سن رہے تھے۔ آخر میں وہ بولے:’’جب ایسا ہے تو پھر ہم سب کیوں وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ کیوں حیلے بہانے بناتے ہیں؟ کیوں جھوٹ بولتے ہیں؟ کیوں خیانت کرتے ہیں؟ کیوں ٹائم کی پابندی نہیں کرتے؟‘‘ ہمارے دوست نے کہا:’’بھائی! بات دراصل یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرا صحیح ہو جائے، لیکن خود اچھا مسلمان، اچھا انسان بننے کی کوشش نہیں کرتا ۔ ہر شخص کو چاہئے کہ سب سے پہلے وہ خود ان سب اچھی باتوں پر عمل کرے۔ اگر ہر شخص یہ سوچ لے کہ کوئی اچھا بنے یا نہ بنے، لیکن میں ضرور مثالی انسان بنوں گا۔ میں لازمی دینی احکام پر عمل کروں گا۔ میں کبھی وعدہ خلافی نہیں کروں گا تو پورا معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا۔

انور غازی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments