Islam

6/recent/ticker-posts

فضائلِ صدقات و خیرات

ہم لوگ تجارت، زراعت اور ملازمت وغیرہ مختلف ذرایع سے دولت کمانے میں جتنی محنت اور کوشش کر کے اس کو جمع کرتے ہیں، وہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ آنے والے وقت کے لیے کچھ ذخیرہ اپنے پاس محفوظ رہے تاکہ ضرورت کے وقت کام میں لایا جاسکے کہ نامعلوم کس وقت کیا ضرورت پیش آجائے۔ لیکن جو اصل ضرورت کا وقت روز قیامت ہے اور اُس کا پیش آنا بھی یقینی ہے اور اُس میں اپنی سخت احتیاج بھی یقینی ہے اور یہ بھی یقینی ہے کہ اُس وقت صرف وہی کام آئے گا جو اپنی زندگی میں خدائی بینک میں جمع کرا دیا گیا ہو۔ اس لیے کہ وہاں تو جمع شدہ ذخیرہ بھی پورا ملے گا اور اُس میں ﷲ جل شانہ کی طرف سے اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔ لیکن اُس کی طرف ہم لوگ بہت ہی کم التفات کرتے ہیں۔ حالاں کہ دُنیا کی یہ زندگی چاہے کتنی ہی زیادہ ہو جائے بہ ہر حال ایک نہ ایک دن ختم ہو جانے والی ہے اور آخرت کی زندگی کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔

دُنیا کی زندگی میں اگر اپنے یا کسی کے پاس سرمایہ نہ رہے تو اِس وقت محنت مزدوری بھی کی جاسکتی ہے، قرض لیا جاسکتا ہے اور ﷲ تعالی اس وقت سے سب کو محفوظ رکھے، بھیک مانگ کر بھی زندگی کے دن پورے کیے جاسکتے ہیں، لیکن آخرت کی زندگی میں کوئی صورت کمائی کی نہیں ہے، وہاں صرف وہی کام آئے گا جو ذخیرے کے طور پر آگے بھیج دیا گیا۔ حضور اقدسؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’قیامت کے دن آدمی ایسا (ضعیف) لایا جائے گا جیسا کہ بھیڑ کا بچہ ہوتا ہے اور ﷲ جل شانہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا، ارشاد ہو گا، مفہوم: ’’میں نے تجھے مال عطا کیا، حشم و خدم دیے، تجھ پر اپنی نعمتیں برسائیں، تُو نے اِن سب انعامات میں کیا کار گزاری کی۔‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’میں نے خوب مال جمع کیا اُس کو (اپنی کوشش سے) بہت بڑھایا اور جتنا شروع میں میرے پاس تھا اُس سے بہت زیادہ کر کے چھوڑ آیا، آپ مجھے دُنیا میں واپس کر دیں۔ 

مَیں وہ سب آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں۔‘‘ ارشاد ہو گا: ’’مجھے تو وہ بتا جو تُو نے زندگی میں (ذخیرے کے طور پر آخرت کے لیے) آگے بھیجا۔‘‘ وہ پھر اپنا پہلا کلام دہرائے گا: ’’میرے پروردگار! میں نے خوب مال جمع کیا اُس کو (اپنی کوشش سے) بہت بڑھایا اور جتنا شروع میں میرے پاس تھا اُس سے بہت زیادہ کر کے چھوڑ آیا، آپ مجھے دُنیا میں واپس کر دیں، مَیں وہ سب لے کر حاضر ہوں۔‘‘ (یعنی خوب صدقہ کروں تاکہ وہ سب یہاں میرے پاس آجائے) چوں کہ اُس کے پاس کوئی ذخیرہ ایسا نہ نکلے گا جو اُس نے اپنے لیے آگے بھیج دیا ہو، اس لیے اُس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔‘‘ ( ترمذی و مشکوٰۃ) حضور اقدسؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’مَیں جنّت میں داخل ہُوا تو میں نے اُس کی دونوں جانب تین سطریں سونے کے پانی سے لکھی ہوئی دیکھیں۔ پہلی سطر میں: ’’لاالٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ‘‘ لکھا تھا۔ دوسری سطر میں: ’’جو ہم نے آگے بھیج دیا وہ پا لیا اور جو دُنیا میں کھایا وہ نفع میں رہا اور جو کچھ چھوڑ آئے وہ نقصان میں رہا اور تیسری سطر میں لکھا تھا: ’’امت گناہ گار اور رب بخشنے والا ہے۔‘‘ ( برکاتِ ذکر)

ایک اور حدیث میں آتا ہے: ’’جب آدمی مر جاتا ہے تو فرشتے پوچھتے ہیں: ’’کیا ذخیرہ اپنے حساب میں جمع کرایا ؟ کیا چیز کل کے لیے بھیجی؟ اور آدمی یہ پوچھتے ہیں: ’’کیا مال چھوڑا۔؟ ‘‘ (مشکوٰۃ) حضورؐ نے دریافت فرمایا، مفہوم: ’’تم میں کون شخص ایسا ہے جس کو اپنے وارث کا مال اپنے سے زیادہ محبوب ہو؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’یارسول ﷲ ﷺ! ہم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث سے زیادہ محبوب نہ ہو۔‘‘ حضور ؐ نے فرمایا: ’’آدمی کا اپنا مال وہ ہے جو اُس نے آگے بھیج دیا اور جو چھوڑ گیا وہ اُس کا مال نہیں بلکہ یہ اُس کے وارث کا مال ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ عن البخاری) ایک دوسری حدیث میں حضورِ اقدس ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’آدمی کہتا ہے: ’’میرا مال، میرا مال‘‘ اُس کے مال میں سے اُس کے لیے صرف تین چیزیں ہیں پہلی یہ کہ جو کھا کر ختم کر دیا۔ دوسری یہ کہ پہن کر پرانا کر دیا۔ اور تیسری یہ کہ جو اس نے ﷲ کے یہاں اپنے حساب میں جمع کرا دیا۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اُس کا مال نہیں (بلکہ وہ سب کچھ دوسرے) لوگوں کے لیے چھوڑ جائے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ) 

ہمارے روز بھر کے مشاہدہ میں یہ ایک عجیب بات اکثر و بیشتر آتی رہتی ہے کہ آدمی عموماً ایسے لوگوں کے لیے جمع کرتا ہے، محنت کرتا ہے، مصیبتیں جھیلتا ہے، تنگی برداشت کرتا ہے، جن کو وہ اپنی خواہش سے ایک پیسا دینے کا بھی روادار نہیں ہوتا، لیکن جمع کر کے آخر کار انہی کے لیے چھوڑ جاتا ہے اور مقدرات اُنہی کو سارے کا وارث بنا دیتے ہیں جن کو وہ ذرا سا بھی دینا نہیں چاہتا تھا۔  حضرت ارباط بن سہیہؒ کا جب انتقال ہونے لگا تو انہوں نے چند اشعار پڑھے، مفہوم : ’’آدمی کہتا ہے کہ میں نے مال بہت جمع کیا، لیکن اکثر کمانے والا دوسروں (یعنی وارثوں) کے لیے جمع کرتا ہے وہ خود تو اپنی زندگی میں اپنا بھی حساب لیتا رہتا ہے کہ کتنا مال کہاں خرچ ہوا ؟ کتنا کہاں خرچ ہوا ؟ لیکن بعد میں ایسے لوگوں کی لُوٹ کے لیے چھوڑ جاتا ہے جن سے حساب بھی نہیں لے سکتا کہ سارے کا سارا کہاں اُڑا دیا ؟ پس آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں کھالے اور دوسروں کو کھلا دے اور اپنے بخیل وارث سے چھین لے۔ آدمی خود تو مرنے کے بعد نامراد رہتا ہے (یعنی کوئی اِس کو اُس مال میں یاد نہیں رکھتا) لیکن دوسرے لوگ اُس کے مال کو کھاتے اُڑاتے پھرتے ہیں۔ آدمی خود تو اُس مال سے محروم ہو جاتا ہے اور دوسرے لوگ اِس سے اپنی خواہشات پوری کر لیتے ہیں۔‘‘

مولانا عماد الدین عندلیب  
(اتحاف سادۃ المتقین)


Post a Comment

0 Comments