Islam

6/recent/ticker-posts

اپنا محاسبہ کیجیے

سال مہینوں کی طرح اور مہینے دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزرتے چلے جارہے ہیں۔ یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے اور آج کل تو ہم سب وقت میں بے برکتی کا شکوہ ہر محفل میں سنتے ہیں۔ ہر گزرتا ہوا دن ہماری عمر کو کم کرتا چلا جا رہا ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے ہر جان دار کے لیے موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے اور موت کو دنیا کے سبھی انسان چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب و فرقے یا قوم و علاقے سے ہو یک ساں تسلیم کرتے ہیں۔ ﷲ کے سوا کسی بشر کو یہ نہیں معلوم کہ کس جگہ اور کس مقام اور کس عمر میں اسے موت آئے گی۔ بعض بچپن میں، بعض جوانی میں چلے جاتے ہے بعض ادھیڑ عمری تک جیتے ہیں اور بعض ارذل عمری تک پہنچتے ہیں اور پھر داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ بعض نوجوان سُہانے مستقبل کے لیے اپنے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں اور انہیں معلوم تک نہیں ہوتا کہ موت کا فرشتہ ان کی تلاش میں روانہ ہو چکا ہے۔

گزشتہ برس ہی دیکھ لیجیے۔ کورونا کی وباء نے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے لوگوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا اور اب تک پوری دنیا کورونا کے عفریت کی زد میں ہے۔ آئے دن ہونے والے حادثات میں کیسے کیسے نوجوان ملک الموت اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک دن ہمیں بھی ﷲ کے پاس حاضر ہونا ہے اور حساب کتاب دینا ہے۔ ﷲ تعالی نے بارہا قرآن عظیم الشان میں موت کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے، مفہوم: ’’تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آپکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ (سورہ النساء) مفہوم: ’’کہہ دیجیے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی۔‘‘ (سورہ جمعہ) متعدد آیات ہیں جن میں ﷲ پاک نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ اپنی آخرت کی فکر کرو۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جلدی سے نیکیاں کر لو، اس سے پہلے کے اندھیری رات کی طرح فتنے چھا جائیں گے، جس میں صبح کے وقت آدمی مومن ہو گا تو شام کو کافر بن جائے گا، یا شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر بن جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم) گزشتہ سال کتنے لوگ ہمارے ساتھ تھے۔ اب قبروں میں ان کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی ہوں گی۔ آج ہم بہ قید حیات ہیں کچھ خبر نہیں کب ملک الموت ہماری جان نکالنے آجائے۔ تب ہمیں دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں بچا سکے گی۔

اسی لیے ہمارے پیارے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو قیمتی مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی راہ نمائی فرمائی اور موقع ہاتھ سے جانے سے پہلے اچھائی اور نیکیاں کر گزرنے کی ترغیب دی۔ اور فرمایا، مفہوم: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت جانو! جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ تن درستی کو بیماری سے پہلے۔ امیری کو فقیری سے پہلے۔ فراغت کو مصروفیت سے پہلے۔ اور زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘ ( سنن نسائی) زندگی کو غنیمت جانو کیوں کہ موت کے ساتھ ہی عمل منقطع ہو جاتے ہیں، اس کی امیدیں مٹی میں مل جاتی ہیں اور اس کی ندامت کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اپنی صحت کو غنیمت جانو کیوں کہ بیمار ہونے کے بعد انسان بہت سے اعمال کی سکت نہیں رکھتا اور صرف تمنا ہی کرتا رہتا ہے کہ کاش! نماز پڑھتا یا روزہ رکھ لیتا، یا نیک اعمال کر لیتا۔ اپنی فراغت کو مصروفیات کے آنے سے پہلے غنیمت جانو، کہ کہیں تمہیں دنیا مصروف نہ کر دے۔اور تم نیک اعمال کرنے سے محروم رہ جاؤ۔ 

اپنی جوانی کو غنیمت جانو، اس سے پہلے کہ تم عمر رسیدہ ہو جاؤ، جسم لاغر ہو جائے، اعضاء جواب دینے لگیں اور فرائض کی بجا آوری بھی دشوار ہوجائے۔ اپنی امیری کو غنیمت سمجھو، صدقات کرو، ﷲ کی راہ میں خرچ کرو، اس سے پہلے کہ تمہارا مال تم سے بچھڑ کر کسی اور کا بن جائے۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن انسان کے قدم ﷲ تعالیٰ کے سامنے سے نہ ہٹیں گے حتی کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال کیا جائے گا اور وہ ان کے جوابات دیدے۔ اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں خرچ کی؟ اور اس کی جوانی کے متعلق کہ کہاں لگائے؟ اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور جن باتوں کا علم تھا اس پر کتنا عمل کیا؟‘‘ (سنن ترمذی) اس حدیث مبارکہ میں غور کیجیے۔ آج اپنا محاسبہ کرنے کا وقت ہے۔ آج ہم اپنی عمر کا بیشتر حصہ کہاں خرچ کر رہے ہیں ؟ ہم کن کاموں میں اپنا وقت اور صلاحیتیں لگا رہے ہیں؟ ﷲ کی اطاعت میں زندگی خرچ کر رہے ہیں یا معصیت میں؟ ہمارے مال کمانے کے ذرائع حلال ہیں یا حرام ؟ اور ہم اس مال کو خرچ کہاں اور کیسے کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے مال ﷲ کی راہ میں خرچ کر کے ﷲ سے نفع بخش تجارت کی؟ مال سے متعلقہ ہم نے ﷲ اور بندوں کے حقوق پورے کیے ۔۔۔؟

اپنا محاسبہ کیجیے کہ گزشتہ سال ہم نے کتنی نیکیاں کیں اور کتنے گناہ کیے؟ کیا ہم نے اپنے نامۂ اعمال میں ایسی نیکیاں درج کروائیں جو بہ روز قیامت ہمارے لیے خوشی و مسرت کا باعث بنیں گی؟ یا ہم غفلت میں ڈوبے رہے؟ اور اپنے نامۂ اعمال میں اپنی کوتاہیوں اور غفلت سے وہ درج کروا بیٹھے جو بہ روز قیامت ہمارے لیے حسرت اور ندامت کا باعث بنیں گی؟ گزشتہ سال کورونا وائرس کی جو وبا آئی اور اب تک مکمل ختم نہیں ہوئی اس سے ہم میں کیا تبدیلی آئی؟ کیا ہم میں تقویٰ پیدا ہوا ؟ کیا ہم نے رجوع الیٰ ﷲ کیا؟ کیا ہم پر ﷲ کے، اس کے رسول ﷺ کے اپنے عزیز و اقارب کے، پڑوسیوں کے جو حقوق تھے ہم نے ادا کیے؟ کیا ہم نے لوگوں کی راحت کا کچھ سامان کیا یا ان کی ایذا رسانی کا سبب بنے رہے؟ کیا اس سال بھی ہماری ساری کوششیں، مال و اسباب صرف اپنی دنیا بنانے میں خر چ ہوتے رہے یا ہم نے کچھ توشہ آخرت بھی جمع کر لیا ۔۔۔۔ ؟ لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رجوع الی ﷲ کریں۔ سچی توبہ کریں اور بعد میں حسرت اور پشیمانی میں مبتلا ہونے کے بہ جائے اس دنیاوی زندگی میں ہی اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر کریں۔

کرن فاطمہ  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments