Islam

6/recent/ticker-posts

بَدگوئی کے منفی سماجی اثرات

بَدگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسی بات یا اشارہ جو کسی شخص کے سامنے اسے ایذا پہنچانے کی نیت سے ادا کیا جائے یا جس سے مخاطب کو ناحق ایذا پہنچے یا بات اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر شرعی یا غیر اخلاقی ہو۔ قرآن کریم میں بدگوئی کی ممانعت: قرآن میں سورہ الحجرات کی آیت میں واضح طور پر اس رویے کو بُرا سمجھا گیا اور اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے اور باز نہ آنے والے لوگوں کو ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔ مفہوم: ’’اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب لگاؤ اور نہ (ایک دوسرے کو) بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا بُرا ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں۔‘‘ (الحجرات) اسی طرح بدگو انسان کو سورہ الھمزہ میں ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے، مفہوم: ’’ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔ ‘‘ (الھمزہ) سورہ القلم میں بھی طعنہ دینے والے شخص کے لیے وعید آئی ہے۔

حدیث میں بدگوئی کی ممانعت: قرآن کے علاوہ احادیث میں بھی بَدگوئی کی واضح طور پر مذمت کی گئی ہے چناں چہ ایک حدیث میں خوش خلقی کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو تم سب میں زیادہ بااخلاق ہو۔‘‘ (صحیح بخاری) اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان ہوتا ہے۔ ’’جو شخص ﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ ( صحیح بخاری) اسی طرح ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ بندے کو سب سے اچھی چیز کیا عطا کی گئی؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: خوش خلقی۔ (سنن ابن ماجہ) بدگوئی کے مختلف انداز: گالی دینا، گالی کا مطلب کوئی دشنام، بدزبانی یا کوئی فحش بات بولنا ہے۔ بدگوئی کی سب سے سنگین صورت حال یہی ہے کہ مخاطب کو گالی دی جائے۔ گالی دینے کے کئی انداز ہیں جیسے کسی جانور سے منسوب کرنا، کسی غلط کردار سے موسوم کرنا، کسی فحش فعل سے نسبت دینا، کسی کے گھر کی خواتین کے بارے میں غلیظ زبان استعمال کرنا، کوئی فحش بات کہہ دینا وغیرہ۔ گالی کسی صورت میں بھی انسانی سماج میں گوارا نہیں اور اس کی ہر مہذّب فورم میں مذّمت ہی کی جاتی ہے۔

گالی دینے کا بنیادی مقصد مخاطب کی توہین کرنا، بے عزت و ذلیل کرنا اور ایذا پہنچانا ہوتا ہے۔ حالاں کہ گالی دینے والے شخص کو جواب میں خود اس بے عزتی کے عمل سے گزرنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آخرت میں اس کے اعمال سے نیکیاں مخاطب کے کھاتے میں بھی منتقل ہونے کا خدشہ بھی موجود ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق یعنی گناہ ہے۔ ایک اور مقام پر نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ دو شخص جو ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں، وہ دونوں شیطان ہوتے ہیں جو بکواس اور جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد) اسی طرح آپؐ نے منافق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت یہ بتائی ہے کہ جب بھی وہ کسی سے اختلاف کرے تو گالیاں بکے (صحیح بخاری) آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن میری امّت کا مفلس وہ آدمی ہو گا جو نماز روزے زکوۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس آدمی کو جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
( صحیح مسلم) 

گالی کی سب سے سنگین صورت یہ ہے کسی مسلمان کو کافر کہا جائے۔ اس بارے میں آپؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’جس نے کسی کو کافر کہا یا ﷲ کا دشمن کہہ کر پکارا حالاں کہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔‘‘ (مسلم)  لعنت کرنا: بدگوئی کا ایک اور پہلو لعنت کرنا ہے۔ لعنت کرنے کا مطلب کسی کو خدا کے عذاب کی یا خدا کی رحمت سے محروم کرنے کی بَددعا دینا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ ﷲ تجھے برباد کرے یا خدا تجھے غارت کرے وغیرہ۔ یہ لازمی طور پر ایک سنگین بَددعا ہے جس سے مخالف کے بارے میں ہمارے عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص پر بلاجواز لعنت کی جارہی ہے تو یہ ایک سنگین گناہ ہے۔ اسی لیے حدیث میں لعنت کرنے کو مومن کے قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ (بخاری) لعنت کرنے والوں کے بارے میں نبی کریمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی جانب پروان چڑھتی ہے اور آسمان کے دروازے اس پر بند کر دیے جاتے ہیں پھر وہ زمین کی جانب اترتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں پھر دائیں بائیں جگہ پکڑتی ہے جب کہیں کوئی داخلے کی جگہ نہیں ملتی تو جس پر لعنت کی گئی ہے اس کی طرف جاتی ہے اگر وہ اس لعنت کا حق دار ہو ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد) آپؐ نے عورتوں کے بڑی تعداد میں جہنم میں جانے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ وہ کثرت سے لعنت کرتی ہیں۔

عیب جوئی کرنا: عیب جوئی کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے عیب بیان کرنا، ان کی خامیوں کو بیان کرنا، نقص نکالنا، نکتہ چینی کرنا، بلاجواز تنقید کرنا یا یا زبردستی ان میں کوئی مفروضہ کمی کو بیان کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ چوں کہ عیب جوئی کا منطقی نتیجہ ایذا رسانی ہے، جس کی قرآن میں ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے، مفہوم: ’’بے شک! جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذاب جہنّم ہے اور ان کے لیے آگ میں جلنے کا عذاب ہے۔‘‘ (البروج) رسول اکرمؐ کے فرمان کا مفہوم: ’’مسلمان کو اذیت نہ دو، انہیں عار نہ دلاؤ، اور ان میں عیوب مت تلاش کرو، کیوں کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے ﷲ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا اور جس کی عیب گیری ﷲ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ ( جامع ترمذی) الزام تراشی کرنا: اس کا مطلب تہمت، بہتان، اتہام یا کسی کو قصور وار ٹھہرانا ہے۔ یہاں الزام سے مراد کسی پر جھوٹا الزام لگانا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ بہتان ایک کبیرہ گناہ ہے۔ خاص طور پر اگر یہ تہمت پاک دامن عورتوں پر لگائی جائی تو لائق تعزیر ہے اور ایسے شخص کو اسّی کوڑوں کی سزا ہے اور ساتھ ہی ان کی گواہی آئندہ کے لیے ناقابل قبول ہے۔

الزام لگانے کی اس کے علاوہ بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ جیسے کسی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگانا، رشوت خوری کی تہمت دھرنا، کفر کے فتوے لگانا وغیرہ۔ الزام تراشی بھی بَدگوئی کی ایک قسم ہے جس سے اجتناب لازم ہے۔ الزام لگانے کی ایک صورت یہ ہے کہ لگایا گیا الزام درست ہو۔ اس صورت میں اگر نیّت اصلاح کی ہے تو یہ بَدگوئی نہیں۔ اگر نیّت تحقیر و ایذا رسانی کی ہے تو یہ بَدگوئی ہے۔ یوں بھی کسی کے منہ پر اس کی خامی کو بہت حکمت سے بیان کرنا چاہیے ورنہ فساد کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مختلف طبقات میں بدگوئی کی نوعیت: یوں تو بدگوئی ایک عام مرض ہے لیکن کچھ مخصوص طبقات میں خاص قسم کی بدکلامی کی جاتی ہے جن پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ نوجوانوں میں بدگوئی: نوجوانوں میں عام طور پر بدگوئی کے جو انداز زیادہ عام ہیں ان میں ایک دوسرے کو بُرے ناموں سے پکارنا، مذاق اڑانا، کسی چڑ کی بنا لینا وغیرہ زیادہ عام ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کا ایک مسئلہ فحش گفت گُو بھی ہے۔ عام طور پر جنس پر مبنی لطیفے، چٹکلے، بُرے القابات، گالیاں اور کلمات ایک دوسرے کے سامنے بولے جاتے ہیں۔

خواتین میں بدگوئی: خواتین کی بدزبانی کے طریقے عام طور پر کسی پر طنز و تشنیع، طعنے بازی، متعلقات جیسے کپڑوں، زیورات، میک اپ وغیرہ پر نکتہ چینی اور ایک دوسرے پر بلا جواز الزام تراشی پر مبنی ہوتے ہیں۔ خواتین میں عام طور پر بدگوئی کا سبب حسد، جلن اور عدم برداشت ہوتا ہے۔ مردوں کی بدگوئی: مرد حضرات عام طور پر تُو تڑاخ، گالم گلوچ، فحش القابات وغیرہ کے ذریعے اس عمل کو انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح مرد حضرات کی بدگوئی کے اہم موضوعات میں دفتری اختلافات، سڑک حادثے پر لڑائی، زمین کا مسئلہ یا کسی عورت پر جھگڑا وغیرہ شامل ہیں۔ مذہبی حلقوں میں بدگوئی: مذہبی حلقے میں علماء اور ان کے مقلدین دونوں شامل ہیں۔ علماء کی بدگوئی میں ایک دوسرے پر کفر کے بلا جواز فتوے لگانا، مخالفین کو منافق، زندیق وغیرہ کہنا شامل ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کو ان القابات سے پکارا جاتا ہے جس سے مخالف چِڑنے پر مجبور ہو جائے۔ دوسری جانب ان علماء کے مقلدین اپنے علماء کی تقلید میں ان سارے القابات کو مزید نئے ناموں کے ساتھ بازاری زبان میں بیان کرتے ہیں۔

بدگوئی کے اسباب: بدگوئی کے چند اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔
تکبر، نفرت اور کینہ، منفی سوچ، حسد، زیادہ بولنے کی عادت، احساسِ کم تری، انتقام و بدگمانی، غصہ، تحمل کی کمی، مخاطب کے جذبات سے لاعلمی وغیرہ۔ بدگوئی سے بچنے کے طریقے: بدگوئی سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ سب سے پہلے وہ سبب معلوم کیا جائے جس کی بنا پر بدگوئی کی جا رہی ہے اور پھر اس سبب کے مطابق علاج کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر بدگوئی کا سبب غصہ ہے تو اس ہر قابو پایا جائے، اگر سبب بہت زیادہ بولنا ہے تو کم بولنے کی مشق کی جائے وغیرہ۔ ﷲ تعالیٰ ہمیں اس مہلک بیماری سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

مولانا رضوان اللہ پشاوری  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments