Islam

6/recent/ticker-posts

چھوٹی نیکی بڑا اَجر

اسلام دنیا کا واحد دین ہے جو حقوق العباد اور حقوق ﷲ پر بالخصوص زور دیتا ہے اور انسان کی عزت نفس کا خیال کرتا اور دوسروں کو اس کی تعظیم کا حکم دیتا ہے۔ دین اسلام میں حسنات کو قرب الٰہی کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ صوم و صلوٰۃ، زکوٰۃ و حج کے علاوہ بھی بے شمار طریقِ حسنات بیان کیے گئے ہیں جس کی ادائی سے بندہ اپنے رب سے قریب اور محبوب خدا ﷺ کی نگاہ میں محبوب ہو جاتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
کسی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔
راستے سے کانٹا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔
بھوکے کو کھانا کھلا دینا اور لباس سے محروم کو کپڑے پہنا دینا بھی صدقہ ہے۔ 
کسی یتیم، غریب، مسکین، فقیر کے سر پر دستِ شفقت رکھ دینا بھی صدقہ ہے۔
بھٹکے ہوئے مسافر کو راستہ بتا دینا اور اندھیری رات میں چراغ جلا دینا بھی صدقہ ہے۔ پیاسے کو پانی پلا دینا بھی صدقہ ہے۔ 

یہ وہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہیں جو دیکھنے میں تو کوئی حقیقت و زیادہ وقعت نہیں رکھتیں یہ تو چلتے پھرتے ہر شخص کر سکتا ہے، لیکن دراصل اسلام میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بالخصوص چھوٹی نیکیوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور ان چھوٹی نیکیوں کا اجر بہت بڑا ہے، اگر اس بات کو سمجھا جائے تو رب تعالیٰ کی نظر میں عمل و نیّت کی جو اہمیت ہے اس کے پیش نظر یہ چھوٹی نیکی ہمارے اعمال کو وزنی اور اس قدر بھاری کر سکتی ہے کہ روزِ محشر ہمیں شرمندگی نہیں ہونے دے گی۔ کیوں کہ ان کے عمل کا حکم محبوب خدا ﷺ نے ناصرف دیا ہے، بلکہ آپ ﷺ نے ان پر عمل کر کے دکھایا بھی ہے۔ اسلام کسی بھی شخص کو دکھ ، تکلیف، دھوکا یا فریب دینے کی قطعی اجازت نہیں دیتا، بلکہ وہ تو ہر ایک کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے اور یہی حسن اخلاق تھا کہ آج دنیا مسلمانوں سے بھری ہوئی ہے۔ حسن عمل اور حسن اخلاق قُرب رب کریم کا پہلا زینہ ہے۔ قرآن کریم و احادیث مبارکہ ان دونوں معاملات کو نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

نیکی کیا ہے؟
یہ انسان کے دل کی آواز ہے۔ اگر ایک شخص یہ طے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا، کسی پر جبر و ظلم کے پہاڑ نہیں توڑے گا، ہر ایک کے کام آئے گا اور فرمان نبوی ﷺ کی روشنی میں اپنی نیکیاں بڑھانے کے لیے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرے گا، تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ حضور نبی کریم ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے کہ مومن وہ ہے کہ اس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسرا محفوظ رہے۔ یہ حدیث ہما ری زندگی کا نچوڑ ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ پہل کون کرے ؟ سوال یہ ہے کہ مسلمان جب ایمان رکھتا ہے تو اسے اس بات پر کُلّی یقین ہونا چاہیے کہ جو اجر اس پر پہلے عمل کرنے والے کو ملے گا تو وہی اجر آخر والے کو بھی ملے گا، لہٰذا بلا تاخیر و انتظار خود ہی اس پر عمل پیرا ہوجانا چاہیے کہ ہر ایک کو اپنا نامۂ اعمال بھرنا ہے۔ خواہ بُرائی سے بھرے یا نیکی سے، اس لیے اچھی زندگی اور عمدہ آخرت کے لیے ’’چھوٹی نیکیوں کے بڑے اجر‘‘ پر عمل پیرا ہو جائیے۔ ﷲ تعالی ہمیں اسلام پر کامل عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین

حاجی محمد حنیف طیّب 

Post a Comment

0 Comments