Islam

6/recent/ticker-posts

اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کے راز

توکل کے معنی ہیں، بھروسہ اور یقین۔ اللّٰہ پاک پر توکل ایک ایسا پیمانہ ہے۔ جس سے انسان کے ایمان کی مضبوطی اور کمزوری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مثلاً جتنا اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ یا توکل مضبوط اور پکا ہوگا اتنا ہی انسان کا ایمان مضبوط ہو گا۔ اور جتنا انسان کا اللّٰہ کریم پر توکل کمزور ومتزلزل ہو گا۔ اتنا ہی اس کا ایمان کمزور ہو گا۔ مطلب یہ کہ انسان ہر وقت اللہ عظیم پر مضبوط توکل و بھروسہ رکھے۔ بعض اوقات انسان سوچتا یا کہتا ہے کہ یہ سب تو ٹھیک ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشا سے ہی ہوتا ہے۔ وہی مسبب الاسباب ہے وہی وسیلہ اور ذریعہ بناتا ہے لیکن اگر میں نے یہ فلاں کام یا طریقہ اختیار نہ کیا تو نتیجہ مشکوک بھی ہو سکتا ہے، بس یہی سوچ اور وسوسہ شیطانی انسان کو توکل اور یقین سے ہٹا دیتا ہے، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللّٰہ رحیم پر توکل اور یقین کے بعد لیکن، اور اگر مگر کی گنجائش نہیں ہے ورنہ انسان پھسل جاتا ہے۔

یہاں پہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اللّٰہ پاک پر توکل ویقین کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کوشش ہی نہ کرے اور یہ کہے کہ مجھے اللّٰہ تعالیٰ پر توکل و یقین ہے وہ خود ہی میرا مسئلہ حل کر دے گا۔ بلکہ انسان جو ممکنہ کوشش کر سکتا ہے وہ کر لے اور اس کے بہتر نتیجہ کے لیے رب کریم سے دعا مانگتا رہے۔ یقین رکھیں کہ اللّٰہ رحیم وکریم اپنی ذات باری پر توکل کرنیوالوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ اس بارے میں سورۃ آل عمران، آیت نمبر159 میں ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ:’’ بے شک اللّٰہ تعالیٰ بھروسہ کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ سورۃ طلاق میں فرمان الٰہی ہے’’ اور جو اللّٰہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ ’’ سورۃ المائدہ میں فرمایا۔’’ اور اللّٰہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے۔ ‘‘ سورۃ الانفال میں ارشاد ربانی ہے۔’’ سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللّٰہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں۔ اور جب ان کے سامنے اللّٰہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد کرتے ہیں‘‘۔

یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اعتماد ویقین اپنی کوشش پر نہیں بلکہ اللّٰہ کی قدرت اور رحم وکرم پر ہو۔ ہمیشہ ہر معاملہ میں اللّٰہ تعالیٰ پر اعتماد، ہر معاملہ میں اللّٰہ پاک سے رجوع اور ہر کام میں اللّٰہ ہی کی محتاجی ہونی چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں پھینکا جارہا تھا اس وقت بھی یہ کلمات ان کی زبان مبارک پر تھے ’’میرے لیے اللّٰہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ القصص میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ دعا بھی کامل یقین کو ظاہر کرتی ہے’’ پروردگار جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘ سورۃ نساء میں فرمایا ’’تو اے نبیﷺ ان سے کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ مالک ہے عرش عظیم کا‘‘۔ اسی طرح سورۃ ابراہیم، سورۃ النحل، سورۃ ہود، سورۃ العنکبوت اور سورۃ المزمل میں بھی اللّٰہ کریم وعظیم پر توکل ویقین کے بارے آیات مبارکہ موجود ہیں۔

ترمذی شریف میں حضرت عمر ؓ بن خطاب سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ اگر تم اس طرح توکل کرو جیسا کہ اللّٰہ پر توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اسی طرح رزق دے جیسے وہ پرندوں کورزق دیتا ہے جو صبح بھوکے پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر لوٹتے ہیں‘‘۔ ترمذی شریف کی ایک اور حدیث پاک میں منقول ہے، جس کے راوی حضرت انسؓ بن مالک ہیں۔’’ایک شخص نے عرض کیا:’’ یا رسول اللّٰہ! کیا میں اونٹ باندھوں اور توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟ آپﷺ نے فرمایا’’ باندھ کر توکل کرو‘‘۔ امام بہیقی اور طبرانی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ’’نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ مجھے اپنی امت پر ضعف یقین کے سوا کسی شے کا خوف نہیں ہے‘‘۔ امام احمد نے کتاب الزہد میں روایت کیا ہے۔’’ حضرت عبداللّٰہ بن عباس ؓ نے فرمایا’’ جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ طاقتور ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ معزز بن جائے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرے اور جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ غنی ہو جائے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر قناعت وکفایت کرے‘‘۔

کسی نے امام علی بن موسیٰ الرضا سے پوچھا’’ توکل کی حد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا’’ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی سے نہ ڈرو‘‘۔ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا’’ بے نیازی اور عزت محو جستجو رہتی ہیں اور جہاں توکل پالیتی ہیں وہیں رہنے لگتی ہیں‘‘۔ توکل کے بارے میں متعدد احادیث قدسیہ اور روایات وفرمودات اہل بیتؓ اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم موجود ہیں۔ اس تحریرکا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ و یقین ہی مضبوط ایمان کی نشانی ہے اور اسی میں دنیاوی مشکلات کا حل اور اخروی راحت کا راز پوشیدہ ہے لیکن اس کے لیے اللّٰہ تعالیٰ، نبی کریمﷺ اور قرآن کریم پر مضبوط و مکمل یقین بنیادی شرط ہے اور اس کے لیے قرآن کریم کی سورۃ یٰسین کی آیت نمبر 82 ہی کافی ہے کہ جس میں ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ :’’ اور وہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے‘‘۔ تو جب سب کام اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے ہی منسلک ہیں اور اس کے حکم اور منشا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا تو پھر اللّٰہ پاک پر توکل اور بھروسہ اور یقین محکم نہ کرنے میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے۔ وہی خالق و مالک اور پروردگار ہے۔ تمام کائنات اس کے تابع ہیں۔ بادشاہ ہے یا فقیر سب اس کے محتاج ہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کرانسان کی محتاجی کرنا بدبختی نہیں تو اور کیا ہے۔ اللّٰہ کریم ہم سب کو تقویٰ اور مکمل توکل نصیب فرمائے۔ آمین!

ایس اے زاہد

Post a Comment

0 Comments