Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/
اللہ ربُ العزت نے مجھے یہ سعادت دی کی کہ میں حضرت غازی علم دین شہیدؒ کی زندگی پر روشنی ڈالوں۔ میں نے غازی علم دین شہیدؒ کے والد محترم کے بھائی کے پوتے کامران رشید سے دریافت کیا تو کہنے لگے کہ '' اصل بات غازی علم دین شہید کا پیغام یہ ہے کہ '' اللہ کی یاد سے کسی بھی وقت غافل نہ ہونا اور یہ سوچتے رہنا کہ ہر ایک نے اپنا اپنا حساب دینا ہے۔ غازی علم دین شہید نے پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے پہلے بلند آواز میں کہا تھا کہ 'اے لوگو گواہ رہنا! میں نے اللہ کی رضا کیلئے گستاخِ رسولﷺ کو قتل کیا ہے‘‘۔ غازی علم دین شہید کو جب کہا گیا کہ ''اگر آپ بیان بدل لو تو رہائی ہو سکتی ہے‘‘۔ شہید نے کہا کہ '' میں بہت جلد نبی اکرم ﷺ کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ میں نے گستاخِ رسول ﷺکو قتل کیا ہے اور مجھے اس پر فخر ہے‘‘۔
غازی علم دین شہید میاں صالح کے صاحبزادے ہیں۔ اندرون لاہور شہر کے بازار سریانوالہ، مسجد چنیانوالی محلہ ککے زئیاں میں رہائش پذیر تھے۔ یہ بازار بکروں کے سری پائے کی وجہ سے سریانوالہ بازار کہلاتا تھا۔ بازار سریانوالہ کی ایک مشہور ہستی مولوی عبداللہ چکڑالوی تھے اور انہی کی وجہ سے مسجد چکڑالوی مشہور تھی۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی نے تفسیر قرآن پاک بھی لکھی ۔ اس بازار کے گمنام گوشے میں 4 دسمبر 1908 ء کو غازی علم دین شہید نے جنم لیا۔ عاشقِ رسول ﷺ غازی علم دین شہید کا گھرانہ معمولی پڑھا لکھا تھا۔ پورے گھر والے بڑھئی کا کام کرتے تھے، والد نے علم دین کو سکول بھیجنے کی بجائے اسی کام پر لگا دیا۔ علم دین شہید بڑا جوشیلا تھا، بیس بائیس برس کی عمر میں طبیعت میں قدرے ٹھہرائو پیدا ہو گیا۔
ایک واضح تبدیلی یہ پیدا ہوئی کہ ذکرالٰہی اور ذکررسولﷺ سے وابستگی پیدا ہو گئی کیوں نہ ہوتی وہ اکثر و بیشتر حضرت عطااللہ شاہ بخاریؒ کی محفل میں بیٹھتے تھے اور پھر ان کا اثر تو یقینی ہونا تھا۔ والد نیک اور پرہیزگار بزرگ تھے، چنانچہ محفل سماع میں کثرت سے شریک ہونے لگا، اب نہ پہلے ساجوش رہا اور نہ اوبالی پن، جہاں نعت رسول مقبول ﷺ سنی، تڑپ جایا کرتا تھا۔ انہی دنوں راجپال نامی لاہور کے ایک ناشر نے حضرت نبی آخرالزماںﷺ کے خلاف ایک گستاخانہ کتاب شائع کی۔ اس دل آزار عمل نے اہل ایمان کے جذبات کو مجروح کیا اور مسلمانوں میں سخت غم و غصہ پیدا ہوا۔ مسلمان رہنمائوں نے اس کتاب کو ضبط کرنے اور ناشر کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا لیکن انگریز مجسٹریٹ نے راجپال کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ کتاب کو ضبط کرنے کے مطالبے کو رد کر دیا گیا۔
اس پر ظلم یہ ہوا کہ ہائی کورٹ کے سابق جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اسے رہا کر دیا جس پر گلی گلی احتجاج شروع ہو گیا۔ راجپال گستاخ کی حفاظت کیلئے دو سپاہی اور ایک حوالدار تعینات کر دئیے گئے اور روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریز حکومت نے دفعہ 144 نافذ کر کے مسلمان رہنمائوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ انگریز حکومت راجپال کے تحفظ کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ ان دنوں غازی علم دین ذریعہ معاش کے سلسلے میں کوہاٹ گئے ہوئے تھے۔ اس واقعہ کا علم ہونے پر لاہور آگئے۔ اُس وقت موچی دروازے میں حضرت عطااللہ شاہ بخاریؒ خطاب فرما رہے تھے کہ ''آج کوئی روحانیت کی آنکھ سے دیکھنے والا ہو تو دیکھ سکتا ہے کہ حضرت محمدﷺ کی بے حرمتی کی جا رہی ہے، ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کرو‘‘۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریر نے علم دین کو ایک منزل دکھا دی جس سے مرد حق کی زندگی یکسر بدل گئی۔
اب پہلے والی شوخی نہ رہی، کسی گہری سوچ میں غرق رہنے لگا، ماں باپ کو فکر و امن گیر ہوئی کہ شاید علم دین کسی سے جھگڑا کر آیا ہے یا کوئی لین دین کا چکر ہے، وہ اللہ کا بندہ ہر لمحہ دل ہی دل میں منصوبہ بنا رہا تھا کہ وہ اس انسان کو جس نے نازیبا کلمات چھاپنے کی جرأت کی ہے، ختم کرنا چاہتا تھا۔ آخر وہ چپکے سے نکلا اور راجپال کی دُکان کا پورا جائزہ لیا ، اُس نے راجپال کو بھی اچھی طرح دیکھ لیا تاکہ وہ اُسی کو نشانہ بنائے۔ اگلے دن دوپہر کے وقت سب لوگ آرام کر رہے تھے یہ عاشق رسولﷺ گھر سے نکلا، مسجد میں غسل کیا اور نماز ظہر ادا کر کے اپنے مشن کی تکمیل کیلئے روانہ ہوا، راجپال اپنی دکان پر اکیلا بیٹھا تھا، اس مرد مجاہد نے اسے للکارا اور اس کے ناپاک اقدام کی سزا دی اور اُسے وہیں ہلاک کر دیا۔ علم دین اس کی ہلاکت کی تصدیق کرنے کے بعد واپس آیا۔
موری دروازہ کے باہر نہر بہتی تھی، اُس پر آکر ہاتھ پائوں دھوئے اور ناپاک خون کے دھبوں سے خود کو پاک کیا اور بڑے اطمینان سے گھر آکرلیٹ گیا، دوسری روایت یہ ہے کہ نہر پر ہاتھ پائوں دھو کر دوبارہ اُسے دیکھنے گیا کہ راجپال سچ مچ مر گیا ہے یا ابھی زندہ ہے، اس دوران وہ پکڑا گیا تھا۔ راجپال کے قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر بھر میں پھیل گئی۔ دُکانیں بند ہو گئیں اور پھر سرشام پولیس نے عاشق رسولﷺ غازی علم دین کو گرفتار کر لیا۔ اس وقت گھر والوں کو پتہ چلا کہ اُن کے بیٹے نے کتنا بڑا معرکہ سرانجام دیا ہے۔ شہر میں ہنگامی صورت پیدا ہو گئی ، کچھ لوگوں نے غازی علم دین سے کہا کہ وہ صحت جرم سے انکار کر دے، مگر اُس مرد مجاہد نے صاف کہہ دیا کہ ''میں نے ہی گستاخِ رسولﷺ کو جہنم واصل کیا ہے‘‘۔
انہیں میانوالی کی جیل میں قید کیا گیا۔ میانوالی جیل سے جو خبریں آتی تھیں، اخباروں کے کالم اُن سے بھرے ہوئے ہوتے تھے، کہیں راتوں کو فیوض باری اور رحمت باری کے تذکرے ہوتے اور کہیں غیب سے پھلوں کی آمد کا ذکر ہوتا، غرضیکہ ہر ایک نے اپنے احساسات اور جذبات کا پورا پورا اظہار کیا۔ کہتے ہیں کہ غازی علم دین شہید کا مقدمہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے لڑا تھا، کیونکہ غازی صاحب نے اقبال جرم کر لیا تھا اور پھر حالات اور واقعات نے ایسی صورت اختیار کر لی تھی کہ عاشق رسولﷺ غازی علم دین کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی اور آپ کو میانوالی روانہ کیا گیا۔ 4 اکتوبر کو صبح سویرے میانوالی پہنچے ، ہر روز سینکڑوں افراد آپ کے دیدار کیلئے جیل میں آتے۔ 30 اکتوبر کو آخری ملاقات کیلئے غازی علم دین شہید کے ورثاء کو میانوالی جیل میں بلایا گیا ۔ اس دن آپ روزے سے تھے۔ 30 اور 31 کی درمیانی شب گویا آخری رات تھی مگر یہ تو آپ کو ہی معلوم تھا کہ وہ یہاں فانی جہاں سے لافانی جہاں میں پہنچ جائیں گے۔
شمعِ رسالت ﷺکے پروانے علم دین نے میانوالی جیل میں جو وصیتیں کیں ان میں اپنے عزیز و اقارب کو تلقین کی کہ تم میں سے کوئی بھی مجھے رو کر نہ ملے۔ رشتہ داروں کو تاکید کی کہ میرے پھانسی لگ جانے سے ان کے گناہ بخشے نہیں جائیں گے نماز قائم کریں، احکام شرعی کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں، بھائی محمد الدین اور بھائی غلام محمد تم پر کسی بھی وقت مصیبت ضرور نازل ہو گی اس لیے تم ہر نماز کے بعد قرآن پاک پڑھنا۔ جب مجھے دفن کر دو تو دو نفل نماز شکرانہ اور دو نفل مغفرت کے واسطے ادا کرنا، میری لاش کے ہمراہ فساد بالکل نہ کیا جائے اور امن و امان کی تلقین کی جائے۔
سب بھائیوں کو السلام علیکم! 31 اکتوبر1929ء کو صبح صادق پروانہ شمع رسالت ﷺ خالق حقیقی سے جا ملا۔ آپ کی نعش کو چارپائی پر ڈال کر جیل سے باہر لایا گیا۔ دروازے پر ہزاروں آنکھیں شہید کا دیدار کرنے کیلئے بیتاب تھیں۔ پولیس نے لوگوں کو جنازہ نہ پڑھنے دیا اور اُن پر پتھرائو کیا بلکہ غازی و شہید کو انگریز حکومت کے حکم پر لاوارثوں کے قبرستان میں بے گوروکفن اور جنازے کے بغیر گڑھے میں ڈال دیا گیا۔ جب یہ خبر لاہور پہنچی تو ہر طرف احتجاج ہوا، علماء کرام اکٹھے ہو گئے، علامہ اقبال، سرمحمد شفیع، دیدار علی شاہ اور مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں مسلمان آپ کا جسدِ خاکی انگریز سے لینے میں کامیاب ہو گئے اور لاہور کو پرامن رکھنے کی تمام تر ذمہ داری علامہ اقبال نے اپنے سر لی۔ نماز جنازہ پنجاب یونیورسٹی گرائونڈ میں پڑھائی گئی۔ جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ علامہ اقبال نے آپ کو خود قبر میں اُتارا اور فرمایا کہ ''ہم دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا‘‘۔ آپ کو لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں دفنایا گیا۔ اللہ ربُ العزت غازی علم الدین شہیدؒ کے درجات مزید بلند فرمائے اور تمام مسلمانوں کو نبی اکرمﷺ کا سچا عاشق بنائے، آمین۔
0 Comments